Govt. Islamia Graduate College Civil Lines, Lahore

Home / 14th August 23 46

یوم آزادی : اسلامیہ کالج سول لائنز میں ہری بھری دعائیں بدھ 16 اگست 2023ءروزنامہ ۹۲ نیوز اشرف شریف کچھ عرصے سے جی تحریر و تقریر کے ساتھ تبدیلی لانے والی عملی سرگرمیوں کی جانب مائل ہورہا ہے۔دل کرتا ہے کسی طرح لوگوں کے دن پھر جائیں ، ان کے دکھ اور کلفتیں ختم ہو جائیں۔سیاست تو خیر اب جیل جاو یا جیل سے آو کا کھیل بن چکی ، اچھے لوگوں کا وقت اور صلاحیت ضائع ہو رہی ہے۔ مادر علمی اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن (فار انئین ایلومنائی فرٹنٹی) کی تشکیل میں سرگرمی اسی مقصد سے دکھائی کہ چلیں کروڑوں نہ سہی ہزاروں کے ساتھ مل کرکوئی مفید کام کیا جائے ۔ یوم آزادی کے موقع پر اس تاریخی کالج میں تین تقریبات رکھی گئیں۔ سوا آٹھ بجے کے قریب کالج میں داخل ہوا تو سامنے اساتذہ‘ کالج سٹاف‘ طلبا اور فار انئین ایلومنائی کے سینکڑوں ممبر جمع نظر آئے۔ پرنسپل آفس کے سامنے سے گزرتے ہوئے لائبریری والے مرکزی سبزہ زار کے داخلی راستے کے دائیں طرف پول نصب تھا۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے پرنسپل ڈاکٹر اختر حسین سندھو‘ چیئرمین فار انئین ایلومنائی سلیم بٹ اور پروفیسر کاشف نے پرچم کشائی کی۔ فوراً بعد قومی ترانہ پڑھا گیا اور پھر اس پرچم کی سربلندی و پاکستان کی ترقی کے لیے دعا کی گئی۔ اگلی تقریب لائبریری ہال میں تھی۔ اس دوران میں نے تین سال پہلے ابا جی کے ہاتھ سے یہاں لگائے گئے زیتون کے پودوں کو دیکھا جو اب گھنے ہو چکے تھے۔ سست رفتاری سے بڑھنے والے زیتون کے دونوں پودے میرے سر سے اونچے ہو چکے ہیں۔امید ہے اگلے ایک دوسال میں ان پر پھل آ جائے گا۔ جامن‘ امرود اور دوسرے پھلدار پودے تو خیر پورے درخت نظر آ رہے تھے۔ ہر وقت دھوپ کی زد میں رہنے والا راستہ تین اطراف سے نیم،گل مہراور دوسرے درختوں کی چھائوں میں آچکا ہے۔ بائیں جانب سے مسجد کے ساتھ چلتے ہم نے ہسٹری ڈیپارٹمنٹ عبور کیا۔ یہاں ہمارے فارسی کے استاد محمد صدیق صاحب کا کمرہ ہوا کرتا تھا۔ گزرتے ہوئے ان کی صورت اور طرز تکلم سامنے آگئے، بے اختیار مسکرا اٹھا۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، تھوڑا آگے بڑھے ، اب دائیں ہاتھ آریہ سماج والوں کی بنائی پانی کی سبیل کا سنگ مرر سے بنا ستون تھا۔ اس کے پاس ہمارے پروفیسر رفیق صبح درس قرآن دیا کرتے ۔ چند قدم بعد ڈیڑھ سو سال پہلے بنی لائبریری میں داخل ہوگیا۔ سلیم بٹ صاحب‘ خاکسار‘ منیب الحق اور آصف سحر کے بعد پرنسپل ڈاکٹر اختر حسین سندھو نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو ممتاز تاریخ دان ہیں۔ سکھ مسلم تعلقات پر ان کی خصوصی نظر ہے۔ کئی کتابیں شائع ہو کر داد پا چکی ہیں۔ ہم نے جو کہا سو کہا لیکن ڈاکٹر اختر سندھو نے آزادی‘ نظریہ پاکستان اور تعمیر پاکستان کا تاریخی منظر نامہ بڑی تفصیل سے پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہندو‘ سکھ‘ مسلمان اور دیگر اقوام صدیوں سے اکٹھی رہ رہی تھیں۔ جن علاقوں میں ہندوئوں کی اکثریت ہوتی وہاں مسلمان ثقافتی حوالے سے دبے ہوتے‘ جہاں مسلمانوں کا غلبہ ہوتا وہاں ہندو عید مناتے‘ گوشت کھاتے‘ آزادی کا تصور دراصل انگریز کی طرف سے کی گئی قانون سازی‘ ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم اور اپنے حامی خاندانوں کو جاگیریں الاٹ کرنے کے بعد ابھرا۔ پنجاب میں مسلمانوں کی تعداد 47 فیصد تھی لیکن انہیں ملازمتوں میں 51 فیصد کوٹہ دیا گیا۔ سکھ 17 فیصد تھے لیکن ان کا کوٹہ 19 فیصد تھا۔ یوں یہاں کے ہندو کو شکایت پیدا ہوئی۔ لاہور ہی وہ شہر ہے جہاں 1929ء میں کانگرس اور 1940ء میں مسلم لیگ نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ تحریک آزادی دراصل اپنی آبادی کے حجم کے مطابق سیاسی اور معاشی آزادی کی تحریک تھی۔ اس کی بنیاد میں جو مطالبات تھے بعد میں انہوں نے اسے مذہبی تقسیم کا رنگ دے دیا۔ ہندو کانگرس اور مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے منظم ہونے لگے۔ اسی مرحلے پر دو قومی نظریہ وجود میں آیا۔ ڈاکٹر اختر حسین سندھو نے نظریہ پاکستان کی عمدہ تعریف بیان کی: تحریک پاکستان و تعمیر پاکستان کی فکری اساس نظریہ پاکستان کہلاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قومی تہواروں اور ایام کے موقع پر ہونے والی تقریبات میں ہمیں ایسے سکالروں کو ضرور مدعو کرنا چاہیے جو فکری و عملی تناظر میں گفتگو کرسکیں۔ان تقریبات میں ایسا بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے جس نے نوجوان دماگوں کو ابہام اور لاعلمی کا شکار بنا دیا ہے۔لوگ صرف خون گرمانے کے لئے خلاف حقیقت باتیں کرتے ہیں۔تقریب کے اختتام پر تحریک پاکستان کے دوران قربانیاں دینے والوں کے لیے فاتحہ کی گئی۔ پرنسپل صاحب نے مٹھائی کا انتظام کر رکھا تھا۔ تمام شرکا کے ساتھ تصاویر بنیں۔ لائبریری سے نکلے تو ایک جگہ تین نوجوان پینٹ شرٹ میں کھڑے تھے۔ ایک نے کالا چشمہ لگا رکھا تھا۔ میں نے پوچھا کون سی جماعت میں پڑھتے ہو‘جھینپتے ہوئے دو بیک وقت بولے، ہم مالی ہیں۔ میں نے تصدیقی لہجے میں دوبارہ پوچھا تو تینوں نے بتایا کہ وہ کالج کے مالی ہیں۔ ڈیجٹل قامت کے خوش پوش مالی دیکھ کر اچھا لگا۔ پرنسپل آفس کے سامنے سبزہ زار میں کوئی بیس کے قریب مالٹے اور کینو کے پودے پڑے تھے۔ چھ سات فٹ اونچے کئی پودوں پر تو تین انچ قطر کا پھل موجود تھا۔ کھڈے کھودے جا چکے تھے۔ ہم نے صرف پودے کو کھڈے میں اتار کر بیلچے سے مٹی ڈالنا تھی۔ یوم آزادی منانے کا اس سے اچھا کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں کہ پندرہ سولہ سال پہلے میں نے لاہور میں غیر ملکی پودوں کی جگہ مقامی اور پھلدار پودے لگانے کی جو مہم شروع کی تھی وہ اب صرف لاہور شہر نہیں بلکہ پورے ملک کی اجتماعی سوچ بن چکی ہے۔ میں لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ ان کا لگایا درخت اگر راہ چلتے لوگوں کو پھل کھانے کا موقع دے تو اس سے بہتر کار خیر کیا ہوسکتا ہے۔یہ پودے نہیں بلکہ ملک کی ترقی اور استحکام کی دعائیں ہیں جو ہم ہری بھری رکھنے کا چارہ کر رہے ہیں۔